لوگ جب تیرا نام لیتے ہیں
ہم کلیجے کو تھام لیتے ہیں
راہ بر کی نہیں ہمیں حاجت
خضر کا دل سے کام لیتے ہیں
بادہ بھی مست ناز ہوتا ہے
جس ادا سے وہ جام لیتے ہیں
شیخ صاحب بہت مریدوں سے
آپ مال حرام لیتے ہیں
مفت بوسہ حسیں نہیں دیتے
دل جو دیتے ہیں دام لیتے ہیں
آدمی کیا ملک درود کے ساتھ
نام خیرالانام لیتے ہیں
ان کو ڈھونڈے کہاں کہاں کوئی
کب وہ نام قیام لیتے ہیں
فتنۂ روزگار بن بن کر
گھر نیا صبح و شام لیتے ہیں
ضعف بھی کیف سے نہیں خالی
جب گروں میں وہ تھام لیتے ہیں
جان کر میرؔ کا کلام اثرؔ
لوگ تیرا کلام لیتے ہیں
غزل
لوگ جب تیرا نام لیتے ہیں
امداد امام اثرؔ