EN हिंदी
لوگ اس ڈھب سے قصیدے میں اتر باندھتے ہیں | شیح شیری
log is Dhab se qaside mein utar bandhte hain

غزل

لوگ اس ڈھب سے قصیدے میں اتر باندھتے ہیں

خواجہ ربانی

;

لوگ اس ڈھب سے قصیدے میں اتر باندھتے ہیں
صاحب صدر کے عیبوں کو ہنر باندھتے ہیں

ہم ترے شہر کا جب عزم سفر باندھتے ہیں
عادتاً کاندھوں پہ اپنے کئی سر باندھتے ہیں

سوکھی شاخوں پہ نئے برگ و ثمر باندھتے ہیں
قافیہ جب بھی نیا اہل ہنر باندھتے ہیں

ان منڈیروں کے چراغوں کی عجب قسمت ہے
جس میں احباب ہواؤں کا گزر باندھتے ہیں

میں اسے لے کے کھڑا ہوں تو نہیں کوئی حریف
کس کے ہونے کا فسوں شعبدہ گر باندھتے ہیں

وہ جو واقف نہیں تہذیب زباں دانی سے
اپنی دستار میں اب وہ بھی گہر باندھتے ہیں

اک غزل ایسی کہ کاغذ کو بھگو دیتی ہے
اس میں ہم قافیۂ دیدۂ تر باندھتے ہیں

ان سے ہشیار نئی طرز کے جادوگر ہیں
کس صفائی سے یہ لوگوں کی نظر باندھتے ہیں

ہم ہیں معذور نظر، پل تری تعریفوں کے
آئنہ خانے کے ارباب مگر باندھتے ہیں