لوگ بھوکے ہیں بہت اور نوالے کم ہیں
زندگی تیرے چراغوں میں اجالے کم ہیں
بد سلوکی بھی نکل آئی ہے زندانوں سے
بد زبانوں کی زبانوں پہ بھی تالے کم ہیں
مے کشی کے لیے نایاب ہیں جو صدیوں سے
چشم ساقی نے وہی جام اچھالے کم ہیں
تو نے بزدل تو بنائے ہیں بہت سے لیکن
مرے مالک تری دنیا میں جیالے کم ہیں
راہ پرخار سے ڈرتا ہے ابھی تو آذرؔ
ایسا لگتا ہے تیرے پاؤں میں چھالے کم ہیں
غزل
لوگ بھوکے ہیں بہت اور نوالے کم ہیں
بلوان سنگھ آذر