لوگ بیٹھے ہیں یہاں ہاتھوں میں خنجر لے کر
تم کہاں آ گئے یہ شاخ گل تر لے کر
بھیگے بھیگے سے مرے گھر کے در و بام ملے
شاید آیا تھا یہاں کوئی سمندر لے کر
اب مجھے اور کسی شے کی تمنا نہ رہی
مطمئن ہوں تری دہلیز کا پتھر لے کر
میری قسمت میں سلگنے کے سوا کچھ بھی نہیں
کیا کرو گے بھلا تم میرا مقدر لے کر
خشک ہونٹوں نے مرے جسم کا رس چوس لیا
اب کوئی آئے تو کیا فائدہ ساغر لے کر
سیدھے رستے کوئی آتا ہی نہیں میری طرف
گردش وقت بھی آتی ہے تو چکر لے کر
اپنے دل کو نہ کرے اب کوئی ہلکا آذرؔ
ورنہ میں جاؤں گا اک بوجھ سا دل پر لے کر

غزل
لوگ بیٹھے ہیں یہاں ہاتھوں میں خنجر لے کر
مشتاق آذر فریدی