لیا جو اس کی نگاہوں نے جائزہ میرا
تو ٹوٹ ٹوٹ گیا خود سے رابطہ میرا
سماعتوں میں یہ کیسی مٹھاس گھلتی رہی
تمام عمر رہا تلخ ذائقہ میرا
چٹخ گیا ہوں میں اپنے ہی ہاتھ سے گر کر
مرے ہی عکس نے توڑا ہے آئنہ میرا
کیا گیا تھا کبھی مجھ کو سنگسار جہاں
وہیں لگایا گیا ہے مجسمہ میرا
جبھی تو عمر سے اپنی زیادہ لگتا ہوں
بڑا ہے مجھ سے کئی سال تجربہ میرا
عداوتوں نے مجھے اعتماد بخشا ہے
محبتوں نے تو کاٹا ہے راستہ میرا
میں اپنے گھر میں ہوں گھر سے گئے ہوؤں کی طرح
مرے ہی سامنے ہوتا ہے تذکرہ میرا
میں لٹ گیا ہوں مظفرؔ حیات کے ہاتھوں
سنے گی کس کی عدالت مقدمہ میرا
غزل
لیا جو اس کی نگاہوں نے جائزہ میرا
مظفر وارثی