EN हिंदी
للہ الحمد کہ دل شعلہ فشاں ہے اب تک | شیح شیری
lillahil-hamd ki dil shola-fishan hai ab tak

غزل

للہ الحمد کہ دل شعلہ فشاں ہے اب تک

جوشؔ ملیح آبادی

;

للہ الحمد کہ دل شعلہ فشاں ہے اب تک
پیر ہے جسم مگر طبع جواں ہے اب تک

برف باری ہے مہ و سال کی سر پر لیکن
خون میں گرمئ پہلوئے بتاں ہے اب تک

سر پہ ہر چند مہ و سال کا غلطاں ہے غبار
فکر میں تاب و تب کاہکشاں ہے اب تک

کب سے نبضوں میں وہ جھنکار نہیں ہے پھر بھی
شعر میں زمزۂ آب رواں ہے اب تک

للہ الحمد کہ دربار خرابات کی خاک
سرمۂ دیدۂ صاحب نظراں ہے اب تک

زندگی کب سے ہے کانٹوں کی تجارت سے فگار
پھر بھی تخئیل میں پھولوں کی دکاں ہے اب تک

فرق پر وقت کا پتھراؤ ہے کب سے جاری
ذہن میں کار گہہ شیشہ گراں ہے اب تک

کس سے کہیے کہ بہ ایں فکر مرا تار وجود
زخمۂ غیب سے لرزاں و تپاں ہے اب تک

کب سے ہوں منکر گلبانگ ملائک پھر بھی
دل پہ جبریل کی دستک کا گماں ہے اب تک

کب سے ہوں بستۂ ناقوس و مزامیر بتاں
پھر بھی سینے میں کوئی گرم اذاں ہے اب تک

سخت حیراں ہوں کہ اس کفر کے جنگل میں بھی جوشؔ
چشم یزداں مری جانب نگراں ہے اب تک