EN हिंदी
لکھنا ہے سر گذشت قلم ناز سے اٹھا | شیح شیری
likhna hai sar-guzasht qalam naz se uTha

غزل

لکھنا ہے سر گذشت قلم ناز سے اٹھا

جمیل عظیم آبادی

;

لکھنا ہے سر گذشت قلم ناز سے اٹھا
ہر نقطۂ حیات کو آغاز سے اٹھا

ہر ماسوا کے خوف کو جس نے مٹا دیا
نعرہ وہ لا تذر کا میرے ساز سے اٹھا

جو بھی بھرم تھا چاند ستاروں کا کھل گیا
پردہ کچھ ایسا جرأت پرواز سے اٹھا

وہ شور جس سے عظمت شاہی لرز گئی
تبریز‌ و قم سے مشہد و شیراز سے اٹھا

افسردہ انجمن ہے فسردہ ہیں اہل دل
یہ کون آج جلوہ گہہ ناز سے اٹھا

یہ نونہال باغ تمنا کے پھول ہیں
آغوش دل میں ان کو ذرا ناز سے اٹھا

مر جاؤں گا تو لوگ کہیں گے یہی جمیلؔ
اک مرد حق کی لاش ہے اعزاز سے اٹھا