لکھے ہوئے الفاظ میں تاثیر نہیں ہے
دل پر جو کسی عشق کی تحریر نہیں ہے
اس زیست کے ہر موڑ پہ لڑنی ہے مجھے جنگ
قرطاس و قلم ہیں کوئی شمشیر نہیں ہے
ممکن ہی نہیں تھا تجھے آواز لگاتے
ہے عشق کی روداد پہ تشہیر نہیں ہے
دنیا میں وفا ڈھونڈنے نکلے تھے ندارد
اک بوجھ ہے دل پر مرے شہتیر نہیں ہے
لمحے میں پلٹ دیں گے زمانے کو تمہارے
ہے عہد ہنر جان یہ تسخیر نہیں ہے
پیوست ہیں اس گھر سے بہت آپ کی یادیں
گزرے ہوئے لمحات ہیں زنجیر نہیں ہے
چپ چاپ بہت دیر سے پھرتے ہیں گریزاں
دنیا میں کوئی آپ سا دلگیر نہیں ہے

غزل
لکھے ہوئے الفاظ میں تاثیر نہیں ہے
شائستہ مفتی