لکھا جو اشک سے تحریر میں نہیں آیا
وہ درد لفظ کی تفسیر میں نہیں آیا
ابھی کچھ اور جکڑ دشمنی کی بندش میں
لہو کا ذائقہ زنجیر میں نہیں آیا
ہو درد ہلکا تو جھوٹی خوشی بھی مل جائے
اک ایسا لمحہ بھی تقدیر میں نہیں آیا
کسی کے ہجر نے مفلس بنا دیا شاید
پلٹ کے اپنی وہ جاگیر میں نہیں آیا
وہ میری آنکھوں پہ قابض رہا سیاؔ لیکن
کسی بھی خواب کی تعبیر میں نہیں آیا
غزل
لکھا جو اشک سے تحریر میں نہیں آیا
سیا سچدیو