EN हिंदी
لکھا ہے مجھ کو بھی لکھنا پڑا ہے | شیح شیری
likha hai mujhko bhi likhna paDa hai

غزل

لکھا ہے مجھ کو بھی لکھنا پڑا ہے

اختر نظمی

;

لکھا ہے مجھ کو بھی لکھنا پڑا ہے
جہاں سے حاشیہ چھوڑا گیا ہے

اگر مانوس ہے تم سے پرندہ
تو پھر اڑنے کو پر کیوں تولتا ہے

کہیں کچھ ہے کہیں کچھ ہے کہیں کچھ
مرا سامان سب بکھرا ہوا ہے

میں جا بیٹھوں کسی برگد کے نیچے
سکوں کا بس یہی ایک راستہ ہے

قیامت دیکھیے میری نظر سے
سوا نیزے پہ سورج آ گیا ہے

شجر جانے کہاں جا کر لگے گا
جسے دریا بہا کر لے گیا ہے

ابھی تو گھر نہیں چھوڑا ہے میں نے
یہ کس کا نام تختی پر لکھا ہے

بہت روکا ہے اس کو پتھروں نے
مگر پانی کو راستہ مل گیا ہے