لباس یار کو میں پارہ پارہ کیا کرتا
قبائے گل سے اسے استعارہ کیا کرتا
بہار گل میں ہیں دریا کے جوش کی لہریں
بھلا میں کشتئ مے سے کنارہ کیا کرتا
نقاب الٹ کے جو منہ عاشقوں کو دکھلاتے
تمہیں کہو کہ تمہارا نظارہ کیا کرتا
سنا جو حال دل زار یار نے تو کہا
طبیب مرتے ہوئے کاہے چارہ کیا کرتا
ہلال عید کا ہر چند ہو جہاں مشتاق
تمہاری ابروؤں کا سا اشارہ کیا کرتا
حقیقت دہن یار کھولتا کیوں کر
نہفتہ راز کو میں آشکارہ کیا کرتا
قدم کو پیچھے رہ خوفناک عشق میں رکھ
یہ پہلے دیکھ لے دل ہے اشارہ کیا کرتا
خم شراب سے مجھ مست نے نہ منہ پھیرا
کنار آب سے پیاسا کنارہ کیا کرتا
بہار تھی جو وہ گل چہرہ یار بھی ہوتا
اکیلے جا کے چمن کا نظارہ کیا کرتا
گداز موم سے ہر استخواں کو پاتا ہوں
پھر اور سوزش دل کا حرارہ کیا کرتا
بڑا ہی خوار علاقہ ہے گلشن الفت
مری طرح کوئی اس میں اجارہ کیا کرتا
شراب خلد کی خاطر دہن ہے رکھتا صاف
وضو میں ورنہ یہ زاہد غرارہ کیا کرتا
شکستہ دل نہ ہو اس بت کے ناز سے کیوں کر
سلوک شیشہ سے ہے سنگ خارا کیا کرتا
بہار گل میں پیالہ لگا لیا منہ سے
شراب پینے کو میں استخارہ کیا کرتا
فقیر کو نہیں درکار شان امیروں کی
سر برہنہ سر گوشوارہ کیا کرتا
بہار گل میں تھا جامہ سے باہر اے آتشؔ
نہ کرتا میں جو گریباں کو پارہ کیا کرتا
غزل
لباس یار کو میں پارہ پارہ کیا کرتا
حیدر علی آتش