EN हिंदी
لباس گل میں وہ خوشبو کے دھیان سے نکلا | شیح شیری
libas-e-gul mein wo KHushbu ke dhyan se nikla

غزل

لباس گل میں وہ خوشبو کے دھیان سے نکلا

اسلم بدر

;

لباس گل میں وہ خوشبو کے دھیان سے نکلا
مرا یقین بھی وہم و گمان سے نکلا

ہمارے ساتھ ہی اب آندھیاں بھی چلتی ہیں
یہ طرز ہم سفری بادبان سے نکلا

کچھ اس طرح سے بندھے ہیں زمیں کی ڈور سے ہم
کہ خوف گم رہی اونچی اڑان سے نکلا

نقیب میں ڈھونڈھ رہا تھا فصیل شب میں مگر
مرا غنیم مرے ہی مکان سے نکلا

اب اس کے بعد کوئی راستہ نہ کوئی سفر
قدم حصار زمان و مکان سے نکلا

عجیب کشمکش جبر و اختیار رہی
غم حیات اسی درمیان سے نکلا

ندی سے پیاس ملی ہے اسی گھرانے کو
کہ جس کے واسطے پانی چٹان سے نکلا