EN हिंदी
لینے لگے جو چٹکی یک بار بیٹھے بیٹھے | شیح شیری
lene lage jo chuTki yak-bar baiThe baiThe

غزل

لینے لگے جو چٹکی یک بار بیٹھے بیٹھے

مصحفی غلام ہمدانی

;

لینے لگے جو چٹکی یک بار بیٹھے بیٹھے
یہ چھیڑ کیا نکالی اے یار بیٹھے بیٹھے

کل وعدہ گاہ میں جب وہ بے وفا نہ آیا
اکتا کے اٹھ گئے ہم ناچار بیٹھے بیٹھے

جو کچھ پڑھا ہے ہم نے ہم آپ ہی آپ اس کی
گھر میں کیا کریں ہیں تکرار بیٹھے بیٹھے

ہم نے تو اس کو ہرگز یارو کہا نہ تھا کچھ
کچھ یوں ہی ہو گیا وہ بیزار بیٹھے بیٹھے

تجھ بن تو ہم نے وے بھی با خامشی ادا کیں
یاد آئیاں جو باتیں دو چار بیٹھے بیٹھے

اے مصحفیؔ انہیں میں صنعت نہیں کچھ اپنی
لکھ ڈالے ہم نے کل یہ اشعار بیٹھے بیٹھے