لے اڑا رنگ فلک جلوۂ رعنائی کا
عکس ہے قوس قزح میں تری انگڑائی کا
اس قدر ناز ہے کیوں آپ کو یکتائی پر
دوسرا نام ہے یہ بھی مری تنہائی کا
عجب انداز سے کچھ مہر خموشی ٹوٹی
وصف پیدا ہوا تصویر میں گویائی کا
کھل رہا ہے تری رحمت کی بدولت ورنہ
کون تھا دیکھنے والا گل صحرائی کا
ہو گئی میرے گناہوں کی سیاہی مقبول
سنگ اسود پہ چڑھا رنگ جبیں سائی کا
صورت یاس سے آئینۂ حیرت ہو کر
دیکھتے رہ گئے چہرہ وہ تمنائی کا
بے خودی دیکھ کے میری سر محفل پوچھا
نام مشہور ہے کیفیؔ اسی صہبائی کا
غزل
لے اڑا رنگ فلک جلوۂ رعنائی کا
چندر بھان کیفی دہلوی