لے کے پھر زخموں کی سوغات بہارو آؤ
چشم پر نم کے مقابل تو پھوہارو آؤ
چند تنکوں کا جلانا تو بڑی بات نہیں
عزم کو میرے جلاؤ تو شرارو آؤ
غم کا سیلاب غضب دل کی شکستہ کشتی
موج کے ساتھ ہی یادوں کے کنارو آؤ
تکتے رہتے ہو کسے دور سے حیرانی سے
دل کے صحرا میں کبھی چاند ستارو آؤ
آمد یار ہو ہر سمت کنول کھلتے ہوں
خواب میں ہی کبھی رنگین نظارو آؤ
غزل
لے کے پھر زخموں کی سوغات بہارو آؤ
احمد شاہد خاں