لے کے ماضی کو جو حال آیا تو دل کانپ گیا
جب کبھی ان کا خیال آیا تو دل کانپ گیا
ایسا توڑا تھا محبت میں کسی نے دل کو
جب کسی شیشہ میں بال آیا تو دل کانپ گیا
سر بلندی پہ تو مغرور تھے ہم بھی لیکن
چڑھتے سورج پہ زوال آیا تو دل کانپ گیا
بد نظر اٹھنے ہی والی تھی کسی کی جانب
اپنی بیٹی کا خیال آیا تو دل کانپ گیا
غزل
لے کے ماضی کو جو حال آیا تو دل کانپ گیا
نواز دیوبندی