EN हिंदी
لے کے ماضی کو جو حال آیا تو دل کانپ گیا | شیح شیری
le ke mazi ko jo haal aaya to dil kanp gaya

غزل

لے کے ماضی کو جو حال آیا تو دل کانپ گیا

نواز دیوبندی

;

لے کے ماضی کو جو حال آیا تو دل کانپ گیا
جب کبھی ان کا خیال آیا تو دل کانپ گیا

ایسا توڑا تھا محبت میں کسی نے دل کو
جب کسی شیشہ میں بال آیا تو دل کانپ گیا

سر بلندی پہ تو مغرور تھے ہم بھی لیکن
چڑھتے سورج پہ زوال آیا تو دل کانپ گیا

بد نظر اٹھنے ہی والی تھی کسی کی جانب
اپنی بیٹی کا خیال آیا تو دل کانپ گیا