لے کے خود پیر مغاں ہاتھ میں مینا آیا
مے کشو شرم کہ اس پر بھی نہ پینا آیا
نہ پلانا کسی مے کش کو نہ پینا آیا
تجھ کو زاہد اگر آیا بھی تو کینہ آیا
عمر بھر خون جگر بیٹھ کے پینا آیا
آرزوؤ تمہیں مرنا ہمیں جینا آیا
دل نے دیکھا مجھے اور میں نے فلک کو دیکھا
بچ کے ساحل پہ اگر کوئی سفینا آیا
کسی بدمست کی یاد آ گئیں آنکھیں ساقی
جب چھلکتا ہوا آگے مرے مینا آیا
اک ذرا سی تھی کبھی کی خلش اس پر اے حشر
دل میں لیتا ہوا زاہد وہی کینہ آیا
لڑکھڑانا کوئی سیکھا کوئی سیکھا مستی
ہم کو آیا تو فقط ڈھال کے پینا آیا
خوش ہو اے چشم کہ ہے فصل یہی رونے کی
مژدہ اے ابر کہ ساون کا مہینہ آیا
پی ہی لینی تھی جو مے خانے کو آ نکلا تھا
تجھ کو صحبت کا بھی زاہد نہ قرینا آیا
چاہا جو کچھ وہ زمانے نے کیا نقش اس پر
میں تو سادہ لیے اس دل کا نگینہ آیا
آج تک دامن گل چاک ہے خیاط ازل
تجھ کو خلعت بھی حسینوں کا نہ سینا آیا
دیکھ چاروں طرف اپنے کہ تماشا کیا ہے
لے کے اس بزم میں تو دیدۂ بینا آیا
منہ پہ عاشق کے محبت کی شکایت ناصح
بات کرنے کا بھی ناداں نہ قرینا آیا
کس طرح ملتے ہیں بچھڑوں سے دکھا دیں گے کبھی
دل میں وہ تیر اگر چیر کے سینا آیا
ڈھال کر دیتے ہیں کس کو کسے بے ڈھالے ہوئے
میرے ساقی کو تو یہ بھی نہ قرینا آیا
زندگی کرتے ہیں کس طرح یہ سیکھو اس وقت
شادؔ کیا نفع اگر مرنے پہ جینا آیا
غزل
لے کے خود پیر مغاں ہاتھ میں مینا آیا
شاد عظیم آبادی