لے کے دل مہر سے پھر رسم جفا کاری کیا
تم دل آرام ہو کرتے ہو دل آزاری کیا
تم سے جو ہو سو کرو ہم نہیں ہونے کے خفا
کچھ ہمیں اور سے کرنی ہے نئی یاری کیا
جوں حباب آئے ہیں ملنے کو نہ ہو چیں بہ جبیں
ہم سے اک دم کے لیے کرتے ہو بے زاری کیا
تیغ ابرو کی تو الفت نے کیا دل کو دو نیم
دیکھیں اب کرتی ہے کاکل کی گرفتاری کیا
پھر سناں مژۂ دل پر وہ اٹھاتا ہے نظیرؔ
زخم شمشیر نگہ آہ نہیں کاری کیا
غزل
لے کے دل مہر سے پھر رسم جفا کاری کیا
نظیر اکبرآبادی