لے کے بے شک ہاتھ میں خنجر چلو
اوڑھ کر اخلاص کی چادر چلو
کوئی چنگاری نہ ہو اس ڈھیر میں
سوچ کر ان خشک پتوں پر چلو
حادثے باہر کھڑے ہیں گھات میں
پھر پلٹ کر خول کے اندر چلو
توڑ کر اس خاکداں کی سرحدیں
بادلوں کی ٹھنڈی سڑکوں پر چلو
فن کی خدمت روٹیاں دیتی نہیں
فن کی خدمت چھوڑ کر دفتر چلو
میں بھی ہوں پتھر بنا دو آدمی
مجھ کو بھی چھوتے ہوئے رگھوبرؔ چلو
زندگی بے داغ بھی اچھی نہیں
تہمتیں کچھ زندگی پر دھر چلو
ہو گیا رخصت گلے مل کر کوئی
تم بھی رکھ کر دل پر اب پتھر چلو
شہر کی مٹی پکارے ہے شبابؔ
ہو چکا بن باس پورا گھر چلو
غزل
لے کے بے شک ہاتھ میں خنجر چلو
شباب للت