لوح محفوظ ترا زیر و زبر کیسا ہے
یہ خط بو العجبی پیش نظر کیسا ہے
تو کہیں اور بسا ہے تو یہ گھر کیسا ہے
لا مکاں والے یہ محراب یہ در کیسا ہے
نقش ابھرا بھی نہیں تھا کہ مٹانے بیٹھے
میرے پیکر سے جہاں والوں کو ڈر کیسا ہے
نہ کوئی شاخ نہ پتے نہ کوئی گل نہ شجر
بیچ آنگن میں کھڑا ہے جو شجر کیسا ہے
میں اسی واسطے ڈوبا کہ سمجھ پاؤ تم
زیر ساحل جو بھنور ہے وہ بھنور کیسا ہے
غزل
لوح محفوظ ترا زیر و زبر کیسا ہے
قوس صدیقی