لمس تشنہ لبی سے گزری ہے
رات کس جاں کنی سے گزری ہے
اس مرصع نگار خانے میں
آنکھ بے منظری سے گزری ہے
ایک سایہ سا پھڑپھڑاتا ہے
کوئی شے روشنی سے گزری ہے
لوٹنے والے ساتھ ساتھ رہے
زندگی سادگی سے گزری ہے
کچھ دکھائی نہیں دیا شاید
عمر اندھی گلی سے گزری ہے
شام آتی تھی دن گزرنے پر
کیا ہوا کیوں ابھی سے گزری ہے
کتنی ہنگامہ خیزیاں لے کر
اک صدا خامشی سے گزری ہے
آنکھ بینائی کے تعاقب میں
کیسی لا حاصلی سے گزری ہے

غزل
لمس تشنہ لبی سے گزری ہے
یاسمین حبیب