EN हिंदी
لمحۂ رفتہ کا دل میں زخم سا بن جائے گا | شیح شیری
lamha-e-rafta ka dil mein zaKHm sa ban jaega

غزل

لمحۂ رفتہ کا دل میں زخم سا بن جائے گا

سلیم احمد

;

لمحۂ رفتہ کا دل میں زخم سا بن جائے گا
جو نہ پر ہوگا کبھی ایسا خلا بن جائے گا

یہ نئے نقش قدم میرے بھٹکنے سے بنے
لوگ جب ان پر چلیں گے راستہ بن جائے گا

گونج سننی ہو تو تنہا وادیوں میں چیخئے
ایک ہی آواز سے اک سلسلہ بن جائے گا

جذب کر دے میری مٹی میں لطافت کا مزاج
پھر وہ تیرے شہر کی آب و ہوا بن جائے گا

کھینچ لائے گی بگولوں کو یہ ویرانی مری
میری تنہائی سے میرا قافلہ بن جائے گا

اس میں لو رکھ دوں گا میں جلتے ہوئے احساس کی
لفظ جو ہونٹوں سے نکلے گا دیا بن جائے گا

جگنوؤں کی مشعلوں سے صحن کی دیوار پر
رقص کرتی روشنی کا دائرہ بن جائے گا

تلخیاں احساس کی جب خون میں گھل جائیں گی
میرا چہرہ میرے غم کا آئنہ بن جائے گا

اک برہمن نے یہ آ کے صحن مسجد میں کہا
عشق جس پتھر کو چھو لے وہ خدا بن جائے گا

ایک سیدھی بات ہے ملنا نہ ملنا عشق میں
اس پہ سوچو گے تو یہ بھی مسئلہ بن جائے گا

میرے سینے میں ابھی اک جذبۂ بے نام ہے
ضبط کرتے کرتے حرف مدعا بن جائے گا

دل میں جو کچھ ہے وہ کہہ دو دوست سے ورنہ سلیمؔ
حرف نا گفتہ دلوں کا فاصلہ بن جائے گا