لمحہ در لمحہ گزرتا ہی چلا جاتا ہے
وقت خوشبو ہے بکھرتا ہی چلا جاتا ہے
آبگینوں کا شجر ہے کہ یہ احساس وجود
جب بکھرتا ہے بکھرتا ہی چلا جاتا ہے
دل کا یہ شہر صدا اور یہ حسیں سناٹا
وادئ جاں میں اترتا ہی چلا جاتا ہے
اب یہ اشکوں کے مرقعے ہیں کہ مٹتے ہی نہیں
نقش پتھر پہ سنورتا ہی چلا جاتا ہے
خون کا رنگ ہے اس پہ بھی شفق کی صورت
خاک در خاک نکھرتا ہی چلا جاتا ہے
واپسی کا یہ سفر کب سے ہوا تھا آغاز
نقش پا جس کا ابھرتا ہی چلا جاتا ہے
جیسے تنویرؔ کے ہونٹوں پہ لکھی ہے تاریخ
ذکر کرتا ہے تو کرتا ہی چلا جاتا ہے
غزل
لمحہ در لمحہ گزرتا ہی چلا جاتا ہے
تنویر احمد علوی