EN हिंदी
لمبی تھی عمر محبت کی برباد ہوئے ہوتے ہوتے | شیح شیری
lambi thi umr mohabbat ki barbaad hue hote hote

غزل

لمبی تھی عمر محبت کی برباد ہوئے ہوتے ہوتے

مشتاق نقوی

;

لمبی تھی عمر محبت کی برباد ہوئے ہوتے ہوتے
کچھ رات کٹی پیتے پیتے کچھ رات کٹی روتے روتے

ان پیاس بھری آنکھوں کے سوا اس جگ میں اپنا تھا ہی کیا
سب کو دیکھا چلتے چلتے سب کو کھویا کھوتے کھوتے

جب یاد کوئی آ جاتی ہے یوں دل کی کلی کھل جاتی ہے
جیسے خوابوں کی دنیا میں بچہ ہنس دے سوتے سوتے

کیا جانئے دل پہ کیا بیتی کیا جانئے آنکھ نے کیا دیکھا
کیوں چونک کے اٹھ اٹھ پڑتے ہیں ہم راتوں کو سوتے سوتے

فصلیں بیتیں موسم بدلا اور وقت نے یوں کیا کچھ نہ کیا
وہ داغ نہ دل سے دور ہوا اک عمر کٹی دھوتے دھوتے