لمبا سفر ہے سود و زیاں دیکھتے رہو
تم انقلاب کون و مکاں دیکھتے رہو
آنکھیں کرو گے بند تو اٹھیں گی انگلیاں
دور بہار ہو کہ خزاں دیکھتے رہو
آئینہ دل کا ہے جو شکستہ تو کیا ہوا
تم اب کمال شیشہ گراں دیکھتے رہو
آسیب کی مثال ہیں یہ راستے تمام
جائے بھٹک کے کون کہاں دیکھتے رہو
دل اور شمع دونوں برابر ہیں سوختہ
اٹھتا ہے کس جگہ سے دھواں دیکھتے رہو
غزل
لمبا سفر ہے سود و زیاں دیکھتے رہو
محبوب عزمی