لکڑی کی دو میزیں ہیں اک لوہے کی الماری ہے
اک شاعر کے کمرے جیسی ہم نے عمر گزاری ہے
ایک سلاخوں والی کھڑکی جھانک رہی ہے آنگن میں
دیواروں پر اوپر نیچے خوابوں کی گلکاری ہے
منظر منظر بھیگ رہا ہے شہر کی خالی سڑکوں پر
پکی نہر پہ گاؤں کے گھوڑے کی ٹاپ سواری ہے
پیاس بجھانے آتے ہیں دکھ درد پرندے رات گئے
خواب کا چشمہ پھوٹا تھا آنکھوں میں اب تک جاری ہے
صندوق پرانی یادوں کا تالا توڑ کے دیکھا تو
اک ریشم کی شال ملی ہے نیلے رنگ کی ساری ہے
وقت ملے تو گلدستے کا ہاتھ پکڑ کر آ جانا
ورنہ کہنا کام بہت ہے آنے میں دشواری ہے
غزل
لکڑی کی دو میزیں ہیں اک لوہے کی الماری ہے
سدرہ سحر عمران