لہو اچھالتے لمحوں کا سلسلہ نکلا
مجھے پہنچنا کہاں تھا کہاں میں آ نکلا
جہاں سفید گلابوں کا خواب تھا روشن
وہاں سیاہ پہاڑوں کا سلسلہ نکلا
بہاؤ تیز تھا دریا کا چند لمحوں میں
مری نگاہ کی حد سے وہ دور جا نکلا
طلسم ٹوٹا جب اس کے حسین لہجے کا
مری امید کے برعکس فیصلہ نکلا
نہ جانے کب سے میں اس کے قریب تھا لیکن
بغور دیکھا تو صدیوں کا فاصلہ نکلا
جو لمحہ لمحہ جدا کر رہا تھا خود سے مجھے
مرے وجود کے اندر ہی وہ چھپا نکلا
سمجھ رہے تھے جسے ہم برات کا منظر
قریب جا کے جو دیکھا تو حادثہ نکلا
غزل
لہو اچھالتے لمحوں کا سلسلہ نکلا
نصرت گوالیاری