لہو سے اٹھ کے گھٹاؤں کے دل برستے ہیں
بدن چھتوں کی طرح دھوپ میں جھلستے ہیں
ہم ایسے پیڑ ہیں جو چھاؤں باندھ کر رکھ دیں
شدید دھوپ میں خود سائے کو ترستے ہیں
ہر ایک جسم کے چاروں طرف سمندر ہے
یہاں عجیب جزیروں میں لوگ بستے ہیں
سبھی کو دھن ہے کہ شیشے کے بام و در ہوں مگر
یہ دیکھتے نہیں پتھر ابھی برستے ہیں
بہا کے لے گیا سیلاب راستے جن کے
وہ شہر اپنے خیالوں میں اب بھی بستے ہیں
مآل کیا ہے اجالوں کے ان دفینوں کا
جنہیں چھوئیں تو اندھیروں کے ناگ ڈستے ہیں
عجیب لوگ ہیں کاغذ کی کشتیاں گڑھ کے
سمندروں کی بلا خیزیوں پہ ہنستے ہیں
غزل
لہو سے اٹھ کے گھٹاؤں کے دل برستے ہیں
عزیز بانو داراب وفا