EN हिंदी
لہو کی لہر میں اک خواب دل شکن بھی گیا | شیح شیری
lahu ki lahr mein ek KHwab-e-dil-shikan bhi gaya

غزل

لہو کی لہر میں اک خواب دل شکن بھی گیا

فہیم شناس کاظمی

;

لہو کی لہر میں اک خواب دل شکن بھی گیا
پھر اس کے ساتھ ہی آنکھیں گئیں بدن بھی گیا

بدلتے وقت نے بدلے مزاج بھی کیسے
تری ادا بھی گئی میرا بانکپن بھی گیا

بس ایک بار وہ آیا تھا سیر کرنے کو
پھر اس کے ساتھ ہی خوشبو گئی چمن بھی گیا

بس اک تعلق بے نام ٹوٹنے کے بعد
سخن تمام ہوا رشتۂ سخن بھی گیا