لہو کی لہر میں اک خواب دل شکن بھی گیا
پھر اس کے ساتھ ہی آنکھیں گئیں بدن بھی گیا
بدلتے وقت نے بدلے مزاج بھی کیسے
تری ادا بھی گئی میرا بانکپن بھی گیا
بس ایک بار وہ آیا تھا سیر کرنے کو
پھر اس کے ساتھ ہی خوشبو گئی چمن بھی گیا
بس اک تعلق بے نام ٹوٹنے کے بعد
سخن تمام ہوا رشتۂ سخن بھی گیا
غزل
لہو کی لہر میں اک خواب دل شکن بھی گیا
فہیم شناس کاظمی