لہو کی بوند مثل آئنہ ہر در پہ رکھی تھی
سند اہل وفا کی لاشۂ بے سر پہ رکھی تھی
نگاہیں وقت کی کیسے نظر انداز کر دیتیں
اساس گلستاں کترے ہوئے شہ پر پہ رکھی تھی
انا مجروح ہو جاتی قدم پیچھے اگر ہٹتے
بنائے قرب دوہری دھار کے خنجر پہ رکھی تھی
ادھر ہم سر ہتھیلی پر لیے مقتل میں پہنچے تھے
ادھر قاتل نے گھبرا کر ہتھیلی سر پہ رکھی تھی
خودی کی روشنی میں میں نے دیکھا ہے عقیدت کو
خدائی ورنہ آذر کی مری ٹھوکر پہ رکھی تھی
خلوص و مہر کے پانی نے ٹھنڈا کر دیا آخر
جو تم نے آگ نفرت کی دل مضطر پہ رکھی تھی
لیا جاتا نہ کیسے امتحان ظرف اے ساقیؔ
نظر ہر ایک بادہ خوار نے ساغر پہ رکھی تھی
غزل
لہو کی بوند مثل آئنہ ہر در پہ رکھی تھی
عبدالحمید ساقی