EN हिंदी
لہو کی آنچ جیسا ہو رہا ہے | شیح شیری
lahu ki aanch jaisa ho raha hai

غزل

لہو کی آنچ جیسا ہو رہا ہے

نبیل احمد نبیل

;

لہو کی آنچ جیسا ہو رہا ہے
تمہارا غم ستارہ ہو رہا ہے

یہ کون آیا ہے بام آرزو پر
فضاؤں میں اجالا ہو رہا ہے

جھڑی ہے دھول کس کے نقش پا سے
بہت آسان رستہ ہو رہا ہے

سکڑتی جا رہی ہے مجھ پہ دھرتی
بدن میرا کشادہ ہو رہا ہے

مری پلکوں پہ اک موہوم آنسو
کہ شبنم سے شرارہ ہو رہا ہے

سمجھتی ہے یہی دنیا کہ مجھ کو
محبت میں خسارہ ہو رہا ہے

عصا جب سے نبیلؔ آیا میسر
سمندر بھی کنارا ہو رہا ہے