لہو کا داغ نہ تھا زخم کا نشان نہ تھا
وہ مر چکا تھا کسی کو مگر گمان نہ تھا
میں چل پڑا تھا کہیں اجنبی دشاؤں میں
ہوا کا زور تھا کشتی میں بادبان نہ تھا
میں اس مکان میں مدت سے قید تھا کہ جہاں
کوئی زمین نہ تھی کوئی آسمان نہ تھا
مری شکست مری فتح کچھ نہیں یعنی
وہ حادثہ تھا کوئی میرا امتحان نہ تھا
تمہارے دور میں ہر آدمی ہے بت کی طرح
ہمارے عہد میں پتھر بھی بے زبان نہ تھا
کسی کھنڈر میں ہی مجھ کو دیا جلانا پڑا
چمکتے شہر میں میرا کوئی مکان نہ تھا
میں سبز رنگ کا چشمہ پہن چکا تھا کلیمؔ
مری نگاہ میں منظر لہولہان نہ تھا
غزل
لہو کا داغ نہ تھا زخم کا نشان نہ تھا
شاہد کلیم