لہو جلا کے اجالے لٹا رہا ہے چراغ
کہ زندگی کا سلیقہ سکھا رہا ہے چراغ
وفور شوق میں لیلئ شب کے چہرے سے
نقاب زلف پریشاں اٹھا رہا ہے چراغ
ہمارے ساتھ پرانے شریک غم کی طرح
عذاب ہجر کے صدمے اٹھا رہا ہے چراغ
یہ روشنی کا پیمبر ہے اس کی بات سنو
صداقتوں کے صحیفے سنا رہا ہے چراغ
شب سیاہ کا آسیب ٹالنے کے لیے
تمام عمر شریک دعا رہا ہے چراغ
ہوائے دہر چلی ہے بڑی رعونت سے
دیار عشق میں کوئی جلا رہا ہے چراغ
وہ ہاتھ بھی ید بیضا سے کم نہیں عاجزؔ
جو خاک ارض وطن سے بنا رہا ہے چراغ
غزل
لہو جلا کے اجالے لٹا رہا ہے چراغ
مشتاق عاجز