لہو آنکھوں میں جمتا جا رہا ہے
یہ دریا خشک پڑتا جا رہا ہے
جسے صدیوں کی وسعت ہے میسر
وہ لمحوں میں سمٹتا جا رہا ہے
جسے دل میں اترنا چاہئے تھا
وہی دل سے اترتا جا رہا ہے
سفینہ پھر سے کوئی ضد کے چلتے
ہواؤں سے الجھتا جا رہا ہے
تماشا گر تو ہیں موجود لیکن
یہ مجمع کیوں اکھڑتا جا رہا ہے
تمہارا عکس ہے یا کوئی جادو
ہر آئینہ سنورتا جا رہا ہے
غزل
لہو آنکھوں میں جمتا جا رہا ہے
پون کمار