لہروں میں بھنور نکلیں گے محور نہ ملے گا
ہر موج میں پانی بھی برابر نہ ملے گا
گر جاتی ہے روز ایک پرت راکھ بدن سے
جلنے کا سماں پھر بھی کہیں پر نہ ملے گا
چشمک بھی جو رکھنی ہے تو چوتھائی زمیں سے
شوریدہ زباں کیسے سمندر نہ ملے گا
ہر سمت دماغوں کے ترنگوں کا ہے شب خوں
تکنیک کی اس جنگ میں لشکر نہ ملے گا
رستے ہی میں جل بجھتی ہے مہتابئ انجم
ثابت کو تو سیار کا زیور نہ ملے گا
کرتے ہیں حفاظت سبھی دیوار انا کی
رخنے کے برابر بھی کہیں در نہ ملے گا
کوزہ گر قاموس کہاں زیبؔ سا تفضیلؔ
سمٹا ہوا کاغذ پہ سمندر نہ ملے گا
غزل
لہروں میں بھنور نکلیں گے محور نہ ملے گا
تفضیل احمد