لغزشیں تنہائیوں کی سب بتا دی جائیں گی
رنگتیں چہروں کی اس صورت اڑا دی جائیں گی
خشک پیڑوں پر نئے موسم اگانے کے لیے
زرد پتوں کی یہ تحریریں مٹا دی جائیں گی
قحط نیندوں کا پڑے گا چاہتوں کے کھیت میں
خواب کی فصلیں اگر ساری جلا دی جائے گی
ان سرابوں میں مقید مجھ سے قیدی کے لیے
کیا فصیلیں ریت کی اونچی اٹھا دی جائیں گی
پھر سمندر کے مکانوں کا بھی لیں گے جائزہ
سیڑھیاں پانی کی تہہ تک جب بنا دی جائیں گی
کیا خبر تھی شک کی خاطر دوستی کے نام پر
آج اپنی آستینیں بھی دکھا دی جائیں گی
جائزہ جب میرے گھر کا لینے وہ آئے جمالؔ
ٹوٹی پھوٹی ہانڈیاں بھی کھنکھنا دی جائیں گی

غزل
لغزشیں تنہائیوں کی سب بتا دی جائیں گی
یوسف جمال