لغزش گام لیے لغزش مستانہ لیے
آئے ہم بزم میں پھر جرأت رندانہ لیے
عشق پہلو میں ہے پھر جلوۂ جانانہ لیے
زلف اک ہاتھ میں اک ہاتھ میں پیمانہ لیے
یاد کرتا تھا ہمیں ساقی و مینا کا ہجوم
اٹھ گئے تھے جو کبھی رونق مے خانہ لیے
وصل کی صبح شب ہجر کے بعد آئی ہے
آفتاب رخ محبوب کا نذرانہ لیے
عصر حاضر کو مبارک ہو نیا دور عوام
اپنی ٹھوکر میں سر شوکت شاہانہ لیے
غزل
لغزش گام لیے لغزش مستانہ لیے
علی سردار جعفری