EN हिंदी
لغزش گام لیے لغزش مستانہ لیے | شیح شیری
laghzish-e-gam liye laghzish-e-mastana liye

غزل

لغزش گام لیے لغزش مستانہ لیے

علی سردار جعفری

;

لغزش گام لیے لغزش مستانہ لیے
آئے ہم بزم میں پھر جرأت رندانہ لیے

عشق پہلو میں ہے پھر جلوۂ جانانہ لیے
زلف اک ہاتھ میں اک ہاتھ میں پیمانہ لیے

یاد کرتا تھا ہمیں ساقی و مینا کا ہجوم
اٹھ گئے تھے جو کبھی رونق مے خانہ لیے

وصل کی صبح شب ہجر کے بعد آئی ہے
آفتاب رخ محبوب کا نذرانہ لیے

عصر حاضر کو مبارک ہو نیا دور عوام
اپنی ٹھوکر میں سر شوکت شاہانہ لیے