لگتا ہے ان دنوں کے ہے محشر بکف ہوا
ہیں سر بکف چراغ تو خنجر بکف ہوا
جب سے چمن میں رکھا ہے بلبل نے آشیاں
شعلہ بکف ہے برق تو اخگر بکف ہوا
رخسار گل کے تل سے ہیں حیران خوشبوئیں
ہے موسم بہار میں عنبر بکف ہوا
علم و عمل سے ہوتی ہے کردار کی پرکھ
اعلان کر رہی ہے یہ محضر بکف ہوا
فرعون اور ابرہہ جیسوں سے بارہا
ہر حال ہی میں نبٹی ہے لشکر بکف ہوا
اعجاز شیر حق کا دکھانے کے واسطے
اژدر بکف ہوئی کبھی خیبر بکف ہوا
گلشن میں مستقل جو ٹھکانا نہیں ملا
صحرا نورد ہو گئی بستر بکف ہوا
دیوان بے نقط سے ہے تیرا وقار حلمؔ
کہتی ہے اہل فن سے یہ گوہر بکف ہوا
غزل
لگتا ہے ان دنوں کے ہے محشر بکف ہوا
وقار حلم سید نگلوی