لگے جب صبح کی کشتی کنارے شب
کیا کرتی ہے جانے کیا اشارے شب
نہیں شکوہ مگر اتنا بتا دو تم
کوئی تم بن بھلا کیسے گزارے شب
چھڑا کر ہاتھ دنیا سے مری خاطر
چلے آؤ جہاں ہو تم پکارے شب
ذرا سوچو یہ کس کے واسطے اپنے
لیے پھرتی ہے دامن میں ستارے شب
اٹھا کے رنج و غم سارے زمانے کے
مرے دل پہ نہ جانے کیوں اتارے شب
غزل
لگے جب صبح کی کشتی کنارے شب
الماس شبی