EN हिंदी
لگا رہا ہوں ہر اک در پہ آئنا بازار | شیح شیری
laga raha hun har ek dar pe aaina bazar

غزل

لگا رہا ہوں ہر اک در پہ آئنا بازار

قوس صدیقی

;

لگا رہا ہوں ہر اک در پہ آئنا بازار
کوئی تو دیکھے سنے دام بولتا بازار

سجا تو خوب ہے اب کے نیا نیا بازار
زمانہ جان تو لے کیا ہے ذائقہ بازار

پرائے جان کی قیمت فقط نظارہ نہیں
خدارا بند ہو ہر دن کا حادثہ بازار

یہی تو ہوتا ہے شیشے کے کاروبار کا حشر
اجڑ گیا ہے اچانک ہرا بھرا بازار

شب سیاہ سے خائف ہے یوں مری دیوار
سجا کے بیٹھی ہے آنگن میں شام کا بازار

بس اک تبسم دل سے خرید لیجے اسے
جہاں بھی جائیے اس جاں کا ہے کھلا بازار

پھر اپنے شور کی قیمت سمجھ سکے گا قوسؔ
نہ خواب دیکھ ذرا جا ٹہل کے آ بازار