لگا رہا ہوں ہر اک در پہ آئنا بازار
کوئی تو دیکھے سنے دام بولتا بازار
سجا تو خوب ہے اب کے نیا نیا بازار
زمانہ جان تو لے کیا ہے ذائقہ بازار
پرائے جان کی قیمت فقط نظارہ نہیں
خدارا بند ہو ہر دن کا حادثہ بازار
یہی تو ہوتا ہے شیشے کے کاروبار کا حشر
اجڑ گیا ہے اچانک ہرا بھرا بازار
شب سیاہ سے خائف ہے یوں مری دیوار
سجا کے بیٹھی ہے آنگن میں شام کا بازار
بس اک تبسم دل سے خرید لیجے اسے
جہاں بھی جائیے اس جاں کا ہے کھلا بازار
پھر اپنے شور کی قیمت سمجھ سکے گا قوسؔ
نہ خواب دیکھ ذرا جا ٹہل کے آ بازار
غزل
لگا رہا ہوں ہر اک در پہ آئنا بازار
قوس صدیقی