EN हिंदी
لگا لیا تھا گلے اس نے با وفا کہہ کر | شیح شیری
laga liya tha gale usne ba-wafa kah kar

غزل

لگا لیا تھا گلے اس نے با وفا کہہ کر

شکیب ایاز

;

لگا لیا تھا گلے اس نے با وفا کہہ کر
ہمیں نے ٹال دیا حرف آشنا کہہ کر

کف طلب پہ کبھی تو مرے حضور لکھو
حنا کے نقش کو تحریر خوں بہا کہہ کر

کچھ ایسی شکل مجھے روبرو دکھائی دی
نظر پلٹ گئی آئینۂ ریا کہہ کر

اڑا کے لے گئی موج صبا نہ جانے کہاں
تمہارے جسم کی خوشبو کو آشنا کہہ کر

فصیل وقت سے آزاد ہو کے میری زباں
قبول عام ہوئی دشت کی صدا کہہ کر

تھیں جن میں دفن ہزاروں قدم کی آوازیں
مٹا دیا ترے تلوے نے نقش پا کہہ کر

میں اپنی وضع پہ قائم رہوں شکیبؔ ایاز
وہ اپنی پیاس بجھائے برا بھلا کہہ کر