لگ جا تو مرے سینہ سے دروازہ کو کر بند
دے کھول قبا اپنی کی بے خوف و خطر بند
افسون نگہ سے تری اے ساقیٔ بد مست
شیشہ میں ہوئی مثل پری اپنی نظر بند
مکڑاتے ہوئے پھرتے ہیں ہم کوچہ میں اس کے
کیا کیجئے دروازہ ادھر بند ادھر بند
یا شاہ نجف نام اشارہ میں ترا لوں
ہو جائے دم نزع زباں میرے اگر بند
آوے وہ اگر یار سفر کردہ تو انشاؔ
میں دوڑ کے کس لطف سے کھلواؤں کمر بند
غزل
لگ جا تو مرے سینہ سے دروازہ کو کر بند
انشاءؔ اللہ خاں