EN हिंदी
لفظوں کے سیہ پیراہن میں لپٹی ہوئی کچھ تنویریں ہیں | شیح شیری
lafzon ke siyah pairahan mein lipTi hui kuchh tanwiren hain

غزل

لفظوں کے سیہ پیراہن میں لپٹی ہوئی کچھ تنویریں ہیں

مخمور سعیدی

;

لفظوں کے سیہ پیراہن میں لپٹی ہوئی کچھ تنویریں ہیں
اے دیدہ ورو پہچانو تو کس ہاتھ کی یہ تحریریں ہیں

جاتی ہوئی رت کب رکتی ہے اے دل یہ عبث تدبیریں ہیں
جو قید ہواؤں کو کر لیں کیا ایسی بھی کچھ زنجیریں ہیں

نغمہ وہ کس نے چھیڑا ہے بچھڑے ہوئے غم سب آن ملے
آواز کی لہروں پر لرزاں سو مہر بہ لب تصویریں ہیں

آوارہ ہوا کے جھونکوں پر اکثر یہ گماں گزرا جیسے
یہ ہم سے پریشاں حالوں کی بے سمت و جہت تقدیریں ہیں

اس شہر میں لے کر آئے ہیں ہم شبنم و گل کی سوغاتیں
آنکھوں میں جہاں انگارے ہیں ہاتھوں میں جہاں شمشیریں ہیں

کچھ خواب اجالوں کے ہم نے دیکھے تھے مگر تا حد نظر
جو ظلمت بن کر پھیل گئیں کن خوابوں کی تعبیریں ہیں

کیوں آج کی جانی پہچانی شکلوں سے نظر مانوس نہیں
آنکھوں میں جو پھرتی رہتی ہیں کس دور کی یہ تصویریں ہیں

ہم اپنی ذات کے زنداں سے باہر جو نکل آئے بھی تو کیا
قدموں سے جو لپٹی پڑتی ہیں راہیں یہ نہیں زنجیریں ہیں