لفظوں کے بت ٹوٹ چکے ہیں
کورا کاغذ پڑا ہوا ہے
گدھ نے کب زندوں کو نوچا
شیر نے کب مردوں کو چھوا ہے
اپنی اپنی بین سنبھالو
سنا ہے شہر میں ناگ آیا ہے
گونگے بول رہے ہیں پتھر
سناٹا ریزہ ریزہ ہے
گھر کا کنواں بھی بے مصرف سا
ساگر میں تیزاب بھرا ہے
سونپ گئی ہے خود کو مجھے وہ
ہرا بھرا دن آوارہ ہے
ندی میں جی بھر کے نہائیں
کنواں بدن سے بھر جاتا ہے
غزل
لفظوں کے بت ٹوٹ چکے ہیں (ردیف .. ے)
احمد سوز