لفظوں کا نیرنگ ہے میرے فن کے جادو سے
اک اک رنگ الگ کر سکتا ہوں میں خوشبو سے
دونوں پریشاں دونوں بوجھل دونوں ہی گھنگھور
گہرا رشتہ ہے بادل کا تیرے گیسو سے
میری پیشانی پر جھلکی میرے لہو کی آگ
رات ڈھلے کچھ چاند سا اگنا اس کے پہلو سے
اچھی صورت کوئی اچانک سامنے جب آ جائے
اپنی ہی انگلی کٹ جاتی ہے اپنے چاقو سے
ہاتھ کو ہاتھ گھنی ظلمت میں جب نہ سمجھائی دیا
سمت ملی ہے اک آوارہ تنہا جگنو سے
رات گئے جب سو جاتا ہے پانی گہری نیند
نغموں کی لہریں اٹھتی ہیں چلتے چپو سے
رمزؔ اٹھے ہیں ہم بھی سنبھالے اپنا تیر کمان
ہم کو بھی وحشت کرنی ہے آج اک آہو سے
غزل
لفظوں کا نیرنگ ہے میرے فن کے جادو سے
محمد احمد رمز