EN हिंदी
لفظ تو ہوں لب گفتار نہ رہنے پائے | شیح شیری
lafz to hon lab-e-guftar na rahne pae

غزل

لفظ تو ہوں لب گفتار نہ رہنے پائے

محسنؔ بھوپالی

;

لفظ تو ہوں لب اظہار نہ رہنے پائے
اب سماعت پہ کوئی بار نہ رہنے پائے

کس طرح کے ہیں مکیں جن کی تگ و دو ہے یہی
در تو باقی رہیں دیوار نہ رہنے پائے

اس میں بھی پہلوئے تسکین نکل آتا ہے
ایک ہی صورت آزار نہ رہنے پائے

ذہن تا ذہن مہکتا ہی رہے زخم ہنر
فصل حرف و لب اظہار نہ رہنے پائے

اب کے موسم میں یہ معیار جنوں ٹھہرا ہے
سر سلامت رہیں دستار نہ رہنے پائے

کوئی درماں کہ ہوا چیخ رہی ہے محسنؔ
نخل ہستی پہ کوئی بار نہ رہنے پائے