لفظ ناگن کی طرح ڈستے ہیں گویائی میں
خامشی زہر ملا دیتی ہے تنہائی میں
دل کی باتوں کو زباں پر نہیں آنے دیتے
کتنی زنجیریں نظر آتی ہیں یکجائی میں
ٹھہرے پانی میں گرا سنگ روانی کوئی
چاہیے تازہ ہوا روح کی گہرائی میں
کیا نظر آئے گا موسم کے نشے میں تجھ کو
کتنے پتے ہیں کہ اڑ جاتے ہیں پروائی میں
شب سے پہلے ہی کوئی چاند نکالو ورنہ
دل بھی نکلے گا اندھیروں کی پذیرائی میں
کھل گئی آنکھ تو خوف آنے لگا ہے خود سے
غم نہ ہو جائیں کہیں اپنی ہی پہنائی میں
کس کے نظارے کی خواہش میں گرفتار ہوئے
زخم آنکھوں کے ملے دل کی مسیحائی میں
ڈوب کر پھر کوئی ابھرا نہ سفینہ غم کا
کتنے طوفاں ہیں ترے جسم کی رعنائی میں
مجھ سے پوچھو کہ بیابان سفر کیسا ہے
عمر گزری ہے مری بادیہ پیمائی میں
ہم بھی مر جائیں گے جینے کی ہوس میں آخر
کام آئیں گے اسی معرکہ آرائی میں
ہنسنے والوں میں کئی اپنے بھی شامل تھے ندیمؔ
شکل پہچانی گئی اپنی بھی رسوائی میں

غزل
لفظ ناگن کی طرح ڈستے ہیں گویائی میں
صلاح الدین ندیم