لفظ آتے ہیں اور جاتے ہیں
پھول ہونٹوں کے تھرتھراتے ہیں
پھول ہی پھول یاد آتے ہیں
آپ جب جب بھی مسکراتے ہیں
آپ جا کر ہوا سے کہہ دیجے
پھول پتے بھی گنگناتے ہیں
دھوپ بیٹھی رہی منڈیروں پر
اور کچھ پنچھی چہچہاتے ہیں
مسکراہٹ کھلی ہے چہرے پر
اشک آنکھوں میں جھلملاتے ہیں
ان نگاہوں کے لکچھ پر میں ہوں
زخم لے کر کے تیر آتے ہیں
ایسے تیراک ہم نہیں ساجدؔ
خوف گہرائیوں سے کھاتے ہیں

غزل
لفظ آتے ہیں اور جاتے ہیں
ساجد پریمی