EN हिंदी
لدی ہے پھولوں سے پھر بھی اداس لگتی ہے | شیح شیری
ladi hai phulon se phir bhi udas lagti hai

غزل

لدی ہے پھولوں سے پھر بھی اداس لگتی ہے

شکیل شمسی

;

لدی ہے پھولوں سے پھر بھی اداس لگتی ہے
یہ شاخ مجھ کو مری غم شناس لگتی ہے

کسی کتاب کے اندر دبی ہوئی تتلی
اسی کتاب کا اک اقتباس لگتی ہے

وہ موت ہی ہے جو دیتی ہے سو طرح کے لباس
یہ زندگی ہے کہ جو بے لباس لگتی ہے

تھی قہقہوں کی تمنا تو آ گئے آنسو
خوشی کی آرزو غم کی اساس لگتی ہے

اٹھا کے دیکھ سرابوں کے آئنہ کو ذرا
ندی کے پاس بھلا کس کو پیاس لگتی ہے