لدی ہے پھولوں سے پھر بھی اداس لگتی ہے
یہ شاخ مجھ کو مری غم شناس لگتی ہے
کسی کتاب کے اندر دبی ہوئی تتلی
اسی کتاب کا اک اقتباس لگتی ہے
وہ موت ہی ہے جو دیتی ہے سو طرح کے لباس
یہ زندگی ہے کہ جو بے لباس لگتی ہے
تھی قہقہوں کی تمنا تو آ گئے آنسو
خوشی کی آرزو غم کی اساس لگتی ہے
اٹھا کے دیکھ سرابوں کے آئنہ کو ذرا
ندی کے پاس بھلا کس کو پیاس لگتی ہے
غزل
لدی ہے پھولوں سے پھر بھی اداس لگتی ہے
شکیل شمسی