لبریز حقیقت گو افسانۂ موسیٰ ہے
اے حسن حجاب آرا کس نے تجھے دیکھا ہے
محفل سی سجائی ہے دیدار کی حسرت نے
ہر چند ترا جلوہ محبوب تماشا ہے
مٹتا ہے کبھی دل سے نقش اس کی محبت کا
ناکام تمنا بھی مجبور تمنا ہے
جذبات کی دنیا میں برپا ہے قیامت سی
اس حال میں رو پوشی کیا آپ کو زیبا ہے
ساقی تری محفل کو رنگین کیا جس نے
وہ خون ہے تقوے کا یا جلوۂ مینا ہے
اک شیوہ تغافل ہے اک عشوہ تجاہل ہے
غصہ ہے بجا تیرا شکوہ مرا بے جا ہے
یہ بے دلی اچھی ہے دیوانہ نہ بن وحشتؔ
انجام تمنا کا حسرت کے سوا کیا ہے
غزل
لبریز حقیقت گو افسانۂ موسیٰ ہے
وحشتؔ رضا علی کلکتوی